About Me

My photo
My name is zahid,people known me as PakArt UrduLover

26 May 2019

رمضان المبارک کا آخری عشرہ ۔

http://en.gravatar.com/wazirabad7


رمضان المبارک کا آخری عشرہ ۔
۔ عشرہ توبہ ۔از؛ نگہت نسیم ڈاکٹر نگہت نسیم ۔سڈنی
آج ہم چاروں طرف سے جن مشکلوں اور دکھوں میں گھرے ہوئے ہیں اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے کسی چھوٹے بڑے گناہ کا احساس تک نہیں ہوتا اور جو احساس ہو ہی جائے تو توبہ کی کوئی جلدی نہیں ہوتی ہے ایسے جیسے ہمیں اپنے مالک و خالق سے کبھی ملنا ہی نہیں ہے ۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم یہ بھی بھول چکے ہیں کہ ان مشکلوں سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے توبہ استغفار ! اللہ کریم نے تو پہلے ہی سے بتا دیا کہ بے شک انسان خسارے میں ہے ۔ لیکن اسی پاک رب نے ان خساروں سے بچنے کی ترکیب و نوید بھی دی ہے ۔

اللہ کریم و رحیم نے کا ارشادِ مبارک ہے:” مومنو! خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو، امید ہے کہ وہ تمہارے گناہ تم سے دور کر دے گا اور تم کو باغ ہائے بہشت میں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں داخل کرے گا“(تحریم:٦٦)۔ 

نبی کریم سرکارِدوعالم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم محبوب خدا نے ارشاد فرمایا: “میں اللہ تعالیٰ سے روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں”۔ اللہ اللہ یہ مقام عاجزی اور انکساری ۔ 

بے شک دکھوں،غموں اور پریشانیوں کا علاج قرآن و سنت کی مکمل پیروی میں ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”جو شخص ساری زمین بھر کر گناہ کر لے اور پھر میرے پاس آجائے بشرطیکہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں اس کو اتنی ہی مغفرت عطا کروں گا جتنے اس کے گناہ تھے”۔اور فرمایا کہ “میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی“ ۔ اس رحمت کے باعث اللہ پاک نہ صرف گناہ معاف فرما دیتے ہیں بلکہ ”جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا“
(فرقان: ٧٠)۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کر لے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے (لیکن) اگر وہ زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ ’’رَانَ‘‘ (زنگ) ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے : (كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِہہم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ) ’’ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے عملوں کی وجہ سے سیاہی چھا گئی ہے۔
:: ابن ماجہ شریف، کتاب : الزهد،2 / 1418، الرقم : 4244

توبہ کے لئے دو باتوں کا ہونا ضروری ہے ۔ ایک تو مصمم ارادہ اور دوسری خلوصِ نیت سے اللہ کے راستے میں کوشش کرنا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :”جو لوگ ہمارے راستے میں کوشش کرتے ہیں تو ہم اُن کے ہاتھ پکڑ کر اپنے راستے پر لے جاتے ہیں“ (العنکبوت ٦٩)۔ 

کوشش کی ایک اور مثال دیکھئے ۔۔ حضرت یوسف علیہ السلام گناہ سے بچنے کے لئے دروازے کی طرف بھاگے،یہ جاننے کے باوجودبھی کہ دروازے پر تالے پڑے ہوئے ہیں تاکہ اللہ میاں سے کہہ سکیں کہ یااللہ دروازے تک بھاگنا میرا کام تھا اور آگے دروازے کھولنا آپ کا کام ۔ پھر فرمایا: “اگر آپ نے مجھ سے ان کے فتنوں کو دور نہ فرمایا تو میں ان میں مبتلا ہو جاؤں گا اور اس کے نتیجے میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں گا”(یوسف:٣٣)۔ 

اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کی توبہ کا انتظار کرتا ہوں ۔۔ اور فرماتے ہیں ”اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنّت کی طرف جلدی سے دوڑو، جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے اور وہ متّقی لوگوں کے لئے تیار کی گئی ہے“ (آلِ عمران:١٣٣)۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”سات چیزوں کے آنے سے پہلے جلد از جلد اچھے اعمال کر لو، جس کے بعد اچھا عمل کرنے کاموقع نہ ملے گا۔ کیا تم ایسے فقروفاقہ کا انتظار کر رہے ہو جو بُھلا دینے والا ہو؟ یا ایسی مالداری کا جو انسان کو سرکش بنا دے؟ یا ایسی بیماری کا جوتمہاری صحت کو خراب کر دے؟ یا سٹھیا دینے والے بڑھاپے کا؟ یا اس موت کا جو اچانک آجائے؟ یا دجّال کا؟ یا پھر قیامت کا ؟ تو سُن رکھو کہ قیامت جب آئے گی تو اتنی مصیبت کی چیز ہو گی کہ اس مصیبت کا کوئی علاج انسان کے پاس نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس کے آنے سے پہلے پہلے نیک عمل کر لو“۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آخر ت میں ہم سے پوچھیں گے کہ” کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو نصیحت حاصل کر لیتا، اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آگیا تھا“
(فاطر:٣٧)۔ 

ایک جگہ فرمایا”اور اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ واقع ہو، اپنے پروردگا ر کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار ہو جاؤ ،پھر تم کو مدد نہیں ملے گی“(زمر:٥٤)

اللہ تعالیٰ نے توبہ کی چند شرائط بتائی ہیں کہ ”خدا انہیں لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو نادانی سے بُری حرکت کر بیٹھتے ہیں، پھر جلد توبہ کر لیتے ہیں۔ پس ایسے لوگوں پر خدا مہربانی کرتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا (اور)حکمت والا ہے۔ اور ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی جو (ساری عمر) برے کام کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آموجود ہوتو اس وقت کہنے لگے کہ اب میں توبہ کرتاہوں اور نہ ان کی (توبہ قبول ہوتی ہے) جوکفر کی حالت میں مریں۔ ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذابِ الیم تیار کررکھا ہے“ (النساء:١٧-١٨)۔ 

یعنی توبہ صرف ان کی قبول ہوتی ہے جو نادانی اور جہالت میں غلطی کرتے ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ جب غلطی ہو گئی تو پھرتوبہ کرنے میں دیر نہیں کرتے اور انہیں اپنے گناہ پر ندامت ہوتی ہے۔ اور تیسرا یہ کہ سب کچھ اللہ کی مہربانی سے ہوتا ہے یعنی توبہ کی توفیق بھی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتے ہیں یعنی ”وہ تو دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے“(فاطر:٣٨)۔ اس لئے توبہ کے لئے خلوصِ نیّت بھی شرط ہے۔ اور ایک شرط یہ ہے کہ توبہ کے بعد اعمالِ صالحہ اختیار کرے۔

توبہ کی اقسام 
ایک توبہ اجمالی ہے اور ایک تفصیلی۔
اجمالی توبہ کے لئے دو رکعت صلوٰۃ التوبہ کی نیت سے پڑھ کر سابقہ زندگی کے تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے اجمالی طور پر عاجزی اور زاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور عزم کریں کہ آئندہ ان گناہوں کے قریب بھی نہیں جاؤں گا۔

توبہ تفصیلی یہ ہے کہ جتنے غلط کام ماضی میں کئے ہوں اور ان کی تلافی ممکن ہو تو ان کی تلافی کی کوشش کی جائے۔ یعنی جو فرائض واجبات، نمازیں، روزے، زکوٰۃ، حج رہ گئے ہیں ان کو ادا کرنے کا اہتمام کریں اور اگر کسی کی کوئی مالی یا جانی حق تلفی کی تو اس کا ازالہ کریں یا کسی کو ناحق تکلیف پہنچائی تو اُس سے معافی مانگیں اور توبہ کے بعد پھر ہر قسم کے گناہ سے بچیں۔ اگر کبھی نادانی سے غلطی ہو جائے تو پھر فوراً توبہ کرلیں۔ اپنی ظاہری و باطنی اصلاح کی ہر طرح سے کوشش کرتے رہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا تلقین فرمائی
اَللّٰھمَّ اجْعَلْ یَوْمَنَا خَیْراً مِّنْ اَمْسِنَا وَغَدَنَا خَیْراً مِّنْ یَّوْمِنَا 
(اے اللہ! ہمارے آج کو گذشتہ کل سے بہتر بنا دیجئے اور ہمارے آئندہ کل کو آج سے بہتر بنا دیجئے)۔

امام المتقیان مولا علی علیہ السلام توبہ کے چھ رکن بیان کرتے ہیں :
١۔ اپنے گناہوں پر پشیمان ہونا۔
٢۔ ارادہ کرے کہ اب دوبارہ کبھی بھی گناہ نہیں کرے گا۔
٣۔ حقوق الناس ادا کرنا
٤۔ حقوق الہیٰ ادا کرنا 
٥۔ جو گوشت رزق حرام سے بدن پر چڑھا ہے وہ پگھل کے رزق حلال سے نیا گوشت بدن پر چڑھے 
٦۔ جس طرح بدن نے گناہوں کا مزہ چکھا ہے اس طرح اطاعت کا مزہ چکھنا چاہیے پس اسی صورت میں خدا نہ صرف اس کو دوست رکھتا ہے بلکہ اپنے محبوب بندوں میں اسے قرار دیتا ہے۔ (٥٠)
آج دنیاکے نقشے پر مسلمان جہاں جہاں رہتے ہیں وہاں وہاں وہ کسی نہ کسی ذلّت و رسوائی کے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے دین کو چھوڑ دیا ہے، ہم نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا دیاہے۔

آیئے آج سے ہم سب مل کر رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں “ عشرہ توبہ “ کا اہتمام کرتے ہیں ۔ 

اللہ سبحانہ تعالی سے گڑگڑا کر اپنے گناہ صغیرہ اور کبیرا کی معاف مانگتے ہیں ۔ توبہ استغفار کرتے ہیں اور اسے راضی کرنے کی خلوص دل سے کوشش کرتے ہیں ۔ 

اللہ کریم و رحیم تو ہمیں خود پکار پکار کر کہہ رہے ہیں :” اے میرے بندوجنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، خدا کی رحمت سے نا اُمید نہ ہونا، خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے، وہ تو بخشنے والا مہربان ہے“(زمر: ٥٣)۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”کیا اب بھی مومنوں کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل خدا کی یاد سے نرم ہو جائیں“(الحدید:١٦)۔ ”

جب کوئی بندہ توبہ کرتا ہے تو آسمانوں پر اس خوشی میں چراغا ں کیاجاتا ہے۔ فرشتے پوچھتے ہیں کہ یہ چراغاں کیسا ہے تو جواب ملتا ہے کہ آج ایک بندے نے اپنے اللہ سے صلح کرلی ہے”۔ “فرشتے جب انسانوں کو اس طرح نافرمانیاں کرتے دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اجازت دیں کہ ایسے نافرمانوں کو ہلاک کردیں، سمندر کہتا ہے اجازت ہو تو میں ان نافرمانوں پر چڑھ جاؤں تو اللہ پاک فرماتے ہیں کہ تم میرے اور میرے بندے کے درمیان دخل نہ دو میں اپنے بندے کی توبہ کا انتظار کرتا ہوں”۔

سبحان اللہ ارض وسماں کا مالک خدائے بزرگ و برتر دنیا جہاں کا ملک ہماری توبہ کا انتظار کرتا ہے ۔

آیئے صدق دل سے رمضان المبارک کی آخری عشرہ کو “ عشرہ توبہ “ میں بدل دیتے ہیں ۔ یہ عشرہ وہی عشرہ ہے جو لیلتہ القدر سے موسوم ہے ۔
اسی عشرہ کی طاق (21, 23, 25, 29,27 ) راتوں میں ایک ایسی رات ہے جو تمام راتوں سے افضل ہے اور شب قدر کہلاتی ہے ۔ جس کی درج ذیل فضیلتیں ہیں:

(١) اس رات میں اللہ تبارک وتعالی نے قرآن مجید کو لوح محفوظ سے بیت العزت میں نازل کیا ، جس کے اندر انسانوں کیلئے ہدایت اور ان کیلئے دنیا وآخرت کی بھلائی ہے. ارشاد باری تعالی ہے (اِنّا اَنْزَلْنَا ہُ فِیْ لَیْلَتہ الْقَدْرِ)٫٫یقینا ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے ،،(سورئہ قدر: ١).

(٢) یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، ارشاد باری تعالی ہے (لَیْلَتہ الْقَدْرِ خَیْر مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ )٫٫شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ،، (سورئہ قدر:٣)اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:٫٫یہ جو مہینہ تم پر آیا ہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو(قدر ومنزلت کے اعتبارسے) ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس(کی سعادت حاصل کرنے )سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا،لیلت القدر کی سعادت سے صرف بے نصیب ہی محروم کیا جاتا ہے ،،(ابن ماجہ کتاب الصیام باب:٢حدیث:١٦٤٤).

(٣) اس رات میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے ، اور فرشتے خیروبرکت اور رحمت کے ساتھ اتر تے ہیں،ارشاد باری تعالی ہے (تَنَزَّلُ الْمَلآئِکَتُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ)٫٫اس میں ہر کام کے سر انجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح(جبریل) اترتے ہیں،،(سورئہ قدر:٤).

(٤) یہ مبارک رات ہے ، ارشاد باری تعالی ہے (اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلِت مُّبَارَکَت)٫٫یقینا ہم نے اسے بابرکت رات میں اتارا ہے ،،(سورئہ دخان:٣).

(٥) اس رات اللہ تعالی آنے والے سال کی بابت موت وحیات اور وسائل زندگی کا فیصلہ کرتا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے ( فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ)٫٫اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ،،(سورئہ دخان:٤).

(٦) یہ رات شروفساد سے خالی اور سلامتی والی رات ہے ،ارشاد باری تعالی ہے (سَلَام ہَِ حَتّی مَطْلَعِ الْفَجْر ِ)٫٫یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے ( سورئہ قدر:٥).

(٧) اس رات میں اس شخص کے گناہوں کی بخشش ہے جس نے اجرو ثواب کی امید میں قیام اللیل کیا (تراویح کی نماز پڑھی ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:٫ ٫جس نے لیلتہ القدر میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے گذشتہ تمام(صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں،،(صحیح بخار ی کتاب فضل لیلت القدر باب: ١حدیث: ٢٠١٤).

(٨) اللہ تبارک وتعالی نے اس رات کی فضیلت میں ایک مکمل سورت٫٫سورئہ قدر،،نازل کی ہے جو تا قیامت تلاوت کی جائے گی.
یہ شب قدر کی چند فضیلتیں ہیں ہمارے لئے مناسب ہے کہ ہم رمضان کے آخر ی عشرہ کی طاق راتوں میں زیادہ سے زیادہ دعاء استغفار اور نیک اعمال کریں ۔خود بھی توبہ کی راغب ہوں اور دوسروں کو بھی یادکرائیں ۔۔۔ اور اپنے رب کے حضور نوافل اد اکریں اور توبہ استغفار کی سو تسبیحات پڑھ کر اس کے حضور اپنی مغفرت طلب کریں اور اپنے غم اور شکست سے عافیت مانگیں ۔۔ آمین ثم آمین 

عشرہ توبہ کے لئے 100 تسبیح برائے توبہ استغفار 
“ استغفراللہ ربی و اتوب الیہ
( میں اپنے پالنے والے سے اس کی مغرت کا طلبگار ہوں اور اس کی طرف ہی پلٹ کر آتا ہوں )

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے:
”توبہ ؛ انسان کے گزشتہ اعمال کو ختم کردیتی ہے“۔

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک اور روایت ہے:
”جس وقت توبہ کرنے والے پر توبہ کے آثار ظاھر نہ ھوں، تو اس کو تائب (یعنی توبہ کرنے والا) نہیں کھا جانا چاہئے، توبہ کے آثار یہ ہیں: جن لوگوں کے حقوق ضائع کئے ہیں ان کی رضایت حاصل کرے، قضا شدہ نمازوں کو ادا کرے، دوسروں کے سامنے تواضع و انکساری سے کام لے، اپنے نفس کو حرام خواہشات سے روکے رکھے اور روزے رکھ کر جسم کو کمزور کرے “۔

مولائے متقیان مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں 
”توبہ کے ذریعہ رحمت خدا نازل ھوتی ھے“۔

حضرت امیر المومنین مولا علی علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
”خداوندعالم کی طرف لوٹ آؤ، اپنے دلوں میں اس کی محبت پیدا کرلو، بے شک خداوندعالم توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ لوگوں کو دوست رکھتا ہے اور مومن بہت زیادہ توبہ کرتا ہے“۔

Urdu Designed Poetry

شاعر۔بشیر بدر سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے

https://groups.google.com/forum/?hl=en-GB#!forum/designe-poetry https://groups.google.com/forum/?hl=en-GB&fbclid=IwAR3uaBk8VFqFNt...

UrduLover